Skip to content Skip to footer

!یومِ استقلال ، بھارتی روش اور ۔ ۔ ۔

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu
مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ روز پوری کشمیری قوم نے یومِ استقلال منایا اور اس موقع پر اپنے اس عہد کا اعادہ کیا کہ بھارت کی تمام تر ریاستی دہشتگردی کے باوجود جدوجہد آزادی کو ہر قیمت پر جاری رکھا جائے گا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حریت رہنما یاسین ملک کو گذشتہ روز ایک بار پھر ان کی شدید علالت کے باوجود گرفتار کر لیا گیا ۔ یاد رہے کہ وادی میں کرفیو کا آج 126 واں روز ہے، ضروریات زندگی کی شدید قلت ہے، موبائل، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں اور بھارتی جارحیت کے خلاف حریت رہنماوں نے بیس نومبر تک ہڑتال کی کال بھی دی ہوئی ہے۔indian-held-kashmir-violence-death-toll-rises-to-23-620x330
اسی پس منظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے لئے اسے فطرت کی جانب سے ایک وارننگ ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی تمام تر احتیاط اور شاطرانہ چالوں کے باوجود عالمی اور علاقائی سطح پر کشمیر کا تنازعہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اہمیت اختیا ر کرتا جا رہا ہے ۔
یوں بھی تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کو شاطرانہ چالوں یا ریاستی دہشتگردی کے بل بوتے پرہمیشہ کے لئے غلام بنا کر رکھنا کسی طور ممکن نہیں ۔
غیر جانبدار تجزیہ کار اس امر پر متفق ہیں کہ تحریکِ آزادی کشمیر ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ کشمیر پر قابض حکام کے لیے اپنے ناجائز تسلط کو قائم رکھنے میں مشکلات حائل ہوتی جا رہی ہیں جس کا مظہر یہ ہے کہ گذشتہ برس برطانوی پارلیمنٹ میں پہلی بار کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف قرار داد سامنے آئی ۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں آزادی کے حق میں ’’ کشمیر گرینڈ مارچ ‘‘ نکالا گیا اور بہت سے انسان دوست حلقوں کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا کہ جس طرح سکاٹ لینڈ کی آزادی کے حوالے سے ریفرنڈم منعقد ہوا ۔ اسی طرح کشمیر یوں سے بھی ان کی رائے جاننے کے لئے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریفرنڈم کروایا جائے ۔ خود بھارت کے کئی اعتدال پسند طبقے بھی ماضی قریب میں اسی موقف کا اظہار کر چکے ہیں ۔ جون 2014 میں بھارتی لوک سبھا کی خاتون رکن اور تلنگانہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی صاحبزادی ’’ کے کویتا ‘‘ نے اعتراف کیا تھا کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ طاقت کے زور پر کیا گیا ہے اس لئے بھارتی سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کیا جائے اور کشمیریوں سے ان کی رائے معلوم کی جائے ۔ اس سے پہلے عام آدمی پارٹی کے اہم رہنما اور بھارت کے ممتاز قانون دان ’’ پرشانت بھوشن ‘‘ چند روز قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر ی اگر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو انھیں الگ ہونے کا حق فراہم کیا جائے ۔
دوسری جانب بھارت سرکار کی تشکیل کردہ کشمیر ثالثی کمیٹی کے سابق سربراہ ’’ دلیپ پنڈگونکر ‘‘ نے بھی کہا کہ پاکستان کو باہر رکھ کے تنازعہ کشمیر کے کسی بھی حل کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ‘‘ ۔ اس بیان پر بی جے پی اور انتہا پسند ہندو طبقات کی تنقید جاری تھی کہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن اور سابق مرکزی وزیر قانون ’’ رام جیٹھ ملانی ‘‘ نے بھی دلیپ پنڈگونکر کے خیالات کو درست قرار دیتے ہوئے گویا بی جے پی اور کانگرس دونوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ۔ بھارتی سرکار اس صورت حال میں خود کو خاصا ہراساں محسوس کر رہی ہے ۔
یاد رہے کہ مقبوضہ ریاست میں احتجاج کی موجودہ لہر انڈین آرمی کی جانب سے بر ہان وانی کی شہادت کے خلاف شروع ہوئی جسے دہشتگرد قرار دے کر سفاکانہ ڈھنگ سے شہید کر دیا گیا ۔ علاوہ ازیں گذشتہ تین ماہ کے دوران 138نہتے اور معصوم کشمیریوں سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا گیا ۔ اس کے علاوہ پیلٹ گنوں کے استعمال سے جس سفاکانہ ڈھنگ سے سینکڑوں کشمیریوں سے ان کی بینائی چھینی گئی اور جا رہی ہے وہ اپنے آپ میں بربریت کی ایک بد ترین مثال ہے ۔ خود ہندوستان کے بعض انسان دوست حلقوں نے بھارت سرکار کی اس غیر انسانی روش کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
ایسے میں توقع رکھی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی دہلی سرکار کی اس روش کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیں گے ۔ اس کے ساتھ خود دہلی کے حکمرانوں کو بھی احساس کرنا ہو گا کہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ محض طاقت کے بل بوتے پر کسی قوم کو ہمیشہ کے لئے غلام بنا کر رکھا جانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔
اسی تناظر میں سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ’’ ڈونلڈ ٹرمپ ‘‘ اپنی پرانی روش کو ترک کر کے زمینی حقائق کا ادراک کریں گے اور کشمیر کے دیرنہ مسئلے کے منصفانہ حل کی جانب ٹھوس پیش رفت کی جائے گی ۔

تیرہ نومبر کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )

 

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements