Skip to content Skip to footer

!افغان تارکینِ وطن ۔۔ یورپی رد عمل

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

ہم اکثر اس امر کو فراموش کر دیتے ہیں کہ جو مہاجرین یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں ، ان کی اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہے ۔ 2015 کی جنوری سے دسمبر تک دو لاکھ افغانوں نے یورپی یونین کے رکن ایک ملک میں پناہ چاہی ۔ یہ تناسب سال 2014 کی بہ نسبت چھ گنا زائد ہے ۔ شامیوں کے بعد افغان قومیت سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین دوسرے نمبر پر ہیں جنھوں نے جرمنی میں ہجرت اور پناہ کی درخواست دی مگر ہم یورپین اس بابت ذکر تک نہیں کرتے کہ کس بڑی تعداد میں افغان باشندوں نے غیر قانونی طور پر جر منی میں داخل ہو کر رہائش اختیار کر رکھی ہے ۔ کم از کم تین ہزار افغان روزانہ ایران میں داخل ہوتے ہیں جہاں سے ان کی اکثریت ترکی کے راستے یونان اور بلقان کے ذریعے یورپ کے قلب میں داخل ہونے کی سعی کرتے ہیں ۔ یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ تاریکن محض غریب نہیں بلکہ اس امر کے کافی شواہد ہیں کہ افغان متوسط طبقہ بھی یورپ میں داخلے کی اس دوڑ میں پوری شدت سے شامل ہے ۔
اسی وجہ سے ’’ قیس رحمانی ‘‘ والا سانحہ پیش آیا جس میں غریب تارکین ایک خستہ حال کشتی میں سوار ہو کر یونان آنا چاہتے تھے مگر وہ سمندر میں ڈوب گئے جس میں ’’ قیس رحمانی ‘‘ کے چار معصوم بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ان دنوں اگر اس صورتحال کا بہت تذکرہ ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسٹر رحمانی افغان ٹی وی کے ایک نمایاں اینکر ہیں جن کا خاندان اچھا تعلیمی پس منظر رکھتا ہے اور وہ اس متوسط طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں جو افغانستان کی نشاۃ ثانیہ پر یقین نہیں رکھتے ۔
بہت سے یورپی ملک سمجھتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ تارکین یورپ پہنچنے پر مجبور ہیں حالانکہ اس مسئلے کا صحیح حل محض یہ نہیں کہ بس افسانوی انداز کی میڈیا مہم کے ذریعے اس مسئلے کا حل ڈھونڈا جائے ۔ افغان حکومت اور طالبان اپنے طور پر ملک چھوڑنے کی اس مہم میں کسی نہ کسی صورت حصہ ڈال رہے ہیں ۔ افغان باغیوں نے حال ہی میں اس امر کا اظہار کیا ہے کہ انھوں نے ان افغانوں کو دھمکی بھرے خطوط بھیجے ہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے کام کرتے رہے اور غیر قانونی طور پر نقل مکانی کا خطرے مول لینے پر مجبور ہوتے رہے ۔
اس ضمن میں مافیا گروہوں کا بھی بڑا کردار ہے ۔ افغانستان کثرت سے آنے جانے والے یہ جانتے ہیں کہ افغانوں کو یہ دھمکیاں محض خطوط کے ذریعے ہی نہیں مل رہیں بلکہ ٹیلی فون ، موبائیل میسجز اور باغیوں کو بھتہ دینے اور تاوان ادا کرنے کے لئے بھی کہا جاتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحافی ’’ قیس ر حمانی ‘‘ اور ان کی اہلیہ ( جو خود بھی صحافی ہیں ) ’’ سائرہ سمادی ‘‘ نے یورپ منتقل ہونے کا فیصلہ
اس لئے کیا کہ جب وہ ترکی میں تھے تو انھیں افغانستان سے دھمکیاں ملیں ( یاد رہے کہ ’’ سائرہ سمادی ‘‘ ترکی میں اپنے ماسٹرز کی ڈگری لینے کے لئے رجسٹرڈ تھیں ) ۔
اس لئے افغان پناہ گزینوں کا بڑا حصہ وہ متوسط طبقہ ہی ہے جو طالبان کے خوف سے یہ سب کچھ کر رہا ہے ۔ دوسری جانب افغانستان کی خانہ جنگی کی وجہ سے طالبان باغیوں کی جانب سے تشدد اور موت روز مرہ کا معمول ہے ۔ اس لئے بعض مافیا گروہ طالبان کے نام پر یہ کر رہے ہیں ۔ بہر کیف اگر طالبان واقعتا اپنے ہم وطنوں کی نقل مکانی سے تشویش میں مبتلا ہیں تو بجا طور پر اس کی ٹھوس وجوہات بھی ہیں ۔ بڑی تعداد میں یورپ میں افغانوں کی موجودگی مغرب کو یہ یاد دہانی کراتی رہتی ہے کہ افغانستان ابھی تک حالتِ جنگ میں ہے اور نیٹو کی پوری کوشش کے باوجود معاملات میں خاطر خواہ سدھار نہیں آیا اور کوئی مسئلہ بھی پوری طرح حل نہیں ہو پایا ۔
واشنگٹن ، پیرس اور برلن وغیرہ میں طالبان کابل سے زیادہ توانا نظر آتے ہیں اور اگر یہ تاثر تبدیل ہوتا ہے تو میدانِ جنگ میں ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔ مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ طالبان افغانوں کی ہجرت کے اس وجہ سے مخالف ہیں کیونکہ اس سے مغرب میں یہ پیغام جا سکتا ہے کہ ’’ نیٹو ‘‘ نے کابل میں جائز حکومت کے خلاف جنگ لڑی تھی ۔ آئینی حکومت کے حوالے سے تشویش کا یہ معاملہ اس وجہ سے زیادہ توانا ہے کہ یہ احساس موجود ہے کہ کابل کی تعمیرِ نو کرنے والے ذہن تیزی سے ملک چھوڑ رہے ہیں ۔ کیونکہ ملک چھوڑنے والوں میں ہنر مند متوسط طبقے کی اکثریت ہے جس سے صورتحال کی یہ سنگینی ظاہر ہوتی ہے کہ ’’ اچھی حکمرانی ‘‘ ناکام ہو چکی ہے اور اس کے لئے محض طالبان ذمہ دار نہیں ہیں ۔
یاد رہے کہ امریکیوں نے افغانستان کی تعمیر نو پر ایک سو دس بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے ۔ 2015 کی ایک آڈٹ رپورٹ کے مطابق خرچ کی گئی اس رقم کا بڑا حصہ بد انتظامی اور کرپشن کی نذر ہو گیا ۔ اور یہ تاثر صرف حالیہ آڈٹ رپورٹ کے نتیجے میں ہی سامنے نہیں آیا بلکہ اسی وجہ سے اگر متوسط طبقہ ملک چھوڑ رہا ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ عام افغان شہریوں میں بھی یہ منفی تاثر موجود ہے کہ حالات کی بہتری کی زیادہ امید نہیں ۔ لہذا افغانوں کے ترکِ وطن کا یہ سلسلہ اس امر کا مظہر ہے کہ ناکامی کا تاثر بہت گہرا ہے اور طالبان امریکہ یا اس کے بعد آنے والی افغان حکومتیں بھی اچھی حکمرانی اور عام لوگوں کے لئے اپنے ہمدردی کے دعووں میں ناکام ہو چکی ہیں ۔
ایسے حالات میں مہا جرین کا یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آتا مگر یورپ کے اپنے مفاد میں ہے کہ اس صورتحال پر قابو پائے تا کہ مزید انسانی المیے ظہور پذیر نہ ہوں اور یورپی یونین کے اپنے اندر زیادہ سماجی اور سیاسی تناؤ جنم نہ لے مگر تا حال لفاظی اور میڈیا مہم سے زیادہ یورپ اس بابت کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا پایا ۔ درحقیقت یورپ کے مختلف دارالحکومتوں میں اب افغانستان کی بابت سوچنا پہلی ترجیح ہی نہیں رہی بلکہ شام اور یوکرائن اس کی جگہ لے چکے ہیں لیکن اگر ہم یورپ والے مہاجرین کی حالیہ لہر کو لے کر حیران ہیں اور یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ
بحران وقتی نہیں کیونکہ ہمارے پالیسی سفارت کار اور سیاستدان یہ سادہ سی بات نہیں سمجھ رہے کہ انتشار یقینی طور پر نقل مکانی کی راہ دکھاتا ہے اور یہ بھی قطعاً ضروری نہیں کہ ہجرت کا یہ سلسلہ متعلقہ ملک کے ہمسایہ ملکوں تک محدود رہے ۔ یورپی یونین کا قائد جرمنی اگرچہ اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ افغانوں کو نسبتاً محفوط علاقوں میں واپس بھجوا دیا جائے گا ۔ اپنے اس عزم کی پختگی دکھاتے ہوئے جرمنی نے اپنے یہاں پناہ چاہنے والوں کی پچاس فیصد سے زائد درخواستیں مسترد کر دی ہیں ۔ مگر یاد رہے کہ ان افغان پناہ گزینوں پر جرمنی اور دیگر یورپین یونین کے دروازے بند کرنا ہی کافی نہیں اور صرف اس سے افغان باشندوں کی یورپ آمد کی حوصلہ شکنی نہیں کی جا سکتی ۔ جب تک افغانستان کے معاملے اور یورپی یونین میں داخلے کی پختہ اور واضح پالیسی اپنائی نہیں جاتی تب تک خاطر خواہ نتائج حاصل کرنا مشکل ہے۔
اگر فرانس اور دیگر یورپی ممالک تارکین کی تعداد میں کمی کرنا چاہتے ہیں تو انھیں افغانستان ریاست کو پوری معاونت فراہم کرنا ہو گی اور افغانستان میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانا اور وہاں کرپشن کے خاتمے کے لئے حقیقی جدو جہد کرنی ہو گی ۔ سفارتی محاذ پر یورپی ملکوں کو اس افغان امن عمل کی مکمل حمایت کرنا ہو گی جس کے لئے امریکہ ، چین اور پاکستان کوشاں ہیں ۔ یہ امن مذکراتی عمل گذشتہ چند مہینوں میں پہلے ہی پٹری سے اتر چکا ہے اور ان دنوں واشنگٹن ، بیجنگ اور اسلام آباد کسی حد تک اس عمل کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یورپی یونین افغانستان میں فی الحال ثانوی اہمیت کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ حالانکہ ہمیں وہاں موثر سفارتی اہمیت حاصل ہے ۔ یورپی کمیشن وزارتِ خارجہ اور اہم یورپی ملکوں کے سفارت خانے پاکستان، چین اور امریکہ کے ساتھ مربوط رابطے کے ذریعے کابل اور طالبان کے مذکراتی عمل میں سہولت کار کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں اور اس بابت کسی قسم کے تحفظات نہیں ہونے چاہیں ۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح شامی تارکینِ وطن کے معاملے میں ترکی کا کردار اہم ہے ، اسی طرح لازم ہے کہ یورپی یونین افغان تارکین کے مسئلے کے حل کے لئے اسلام آباد اور تہران کے ساتھ گہرائی سے کام کرے ۔ ایران بھی پاکستان کی مانند 1980 کے عشرے کے اوائل سے ایک سے تین ملین افغان مہاجرین کے معاملے سے منسلک رہا ہے جو قانونی یا غیر قانونی طور پر وہاں رہ رہے ہیں ۔ اس لئے ایران اور افغانستان کی حکومتوں کو مکمل تعاون اور امداد فراہم کر کے افغان شہریوں کو اپنا ملک چھوڑنے سے باز رکھا جا سکتا ہے اور یہی ایک اچھی پالیسی ہو گی ۔ کیونکہ سیاسی ، معاشی اور سلامتی کے حوالے سے مستحکم صورتحال کے قیام سے کچھ عرصے میں تارکین کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
یوں حرف آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ افغان مہاجرین کی یورپ آمد میں کمی یا زیادتی کا معاملہ تبھی حل سکتا ہے جب انھی مقاصد اور اہداف کو پاکستان اور ایران کے معاملے میں سامنے رکھا جائے جیسا کہ شام کے معاملے میں ترکی کے ساتھ رکھا جا رہا ہے ۔ ان تینوں ملکوں کو مہا جرین کے لئے پر کشش بنانے کے لئے انھیں ہر لحاظ سے خوشحال اور مستحکم بنانا ہو گا ۔ dc
تحریر : ڈیڈیئر شودت  “فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں ۔ وہ افغانستان ، پاکستان ، ایران اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’ سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز ‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور ‘‘ ، ’’ پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز ‘‘ ، ’’ فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز ‘‘ اور ’’ یالے یونیورسٹی ‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’ اپری ( اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ) سے ’’ نان ریزیڈنٹ سکالر ‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں” ۔  ترجمعہ : اصغر علی شاد

نو مئی کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔

( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements